امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تمہارے سامنے ایک شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے۔ چنانچہ ایک صاحب انصار میں سے آئے جن کی داڑھی سے تازہ وضو کے قطرے ٹپک رہے تھے اور بائیں ہاتھ میں اپنے نعلین لئے ہوئے تھے۔ دوسرے دن ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور یہی شخص اسی حالت کے ساتھ سامنے آیا، تیسرے روز بھی یہی واقعہ پیش آیا اور یہی شخص اپنی مذکورہ حالت میں داخل ہوئے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اٹھ گئے تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اس شخص کے پیچھے لگے تاکہ اس کے اہل جنت ہونے کا راز معلوم کریں اور ان سے کہا: "میں نے کسی جھگڑے میں قسم کھالی ہے کہ میں تین روز تک اپنے گھر نہ جاوں گا ، اگر آپ مناسب سمجھیں تو تین روز مجھے اپنے یہاں رہنے کی جگہ دے دیں" ۔ انہوں نے منظور فرمایا۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے تین راتیں ان کے ساتھ گزاریں تو دیکھا کہ رات کو تہجد کیلئے نہیں اٹھتے ، البتہ سونے کیلئے بستر پر جاتے تو کچھ اللہ کا ذکر کرتے تھے پھر صبح کی نماز کیلئے اٹھ جاتے تھے۔ البتہ اس پورے عرصے میں ان کی زبان سے بجز کلمہ خیر کے کوئی کلمہ نہیں سنا۔
جب تین راتیں گزر گئیں اور قریب تھا کہ میرے دل میں ان کے عمل کی حقارت آجائے تو میں نے ان پر اپنا راز کھول دیا: "ہمارے گھر کوئی جھگڑا نہیں تھا لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین روز تک یہ سنتا رہا کہ تہمارے پاس ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے اور اس کے بعد تینوں دن آپ ہی آئے اس لئے میں نے چاہا کہ آپ کے ساتھ رہ کر دیکھوں کہ آپ کا وہ کیا عمل ہے جس کے سبب یہ فضیلت آپ کو حاصل ہوئی ، مگر عجیب بات ہے کہ میں نے آپ کو کوئی بڑا عمل کرتے نہیں دیکھا تو وہ کیا چیز ہے جس نے آپ کو اس درجہ پر پہنچایا?"
انہوں نے کہا میرے پاس تو بجز اس کے کوئی عمل نہیں جو آپ نے دیکھا ۔ میں یہ سن کر آنے لگا تو مجھے بلا کر کہا: "ہاں ایک بات ہے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے کینہ اور برائی نہیں پاتا اور کسی پر حسد نہیں کرتا جس کو اللہ نے کوئی خیر کی چیز عطا فرمائی ہو"۔
عبداللہ بن عمرو العاص رضی عنہ نے کہا: "بس یہی وہ صفت ہے جس نے آپ کو یہ بلند مقام عطا کیا ہے"۔ (معارف القرآن: جلد 8)
No comments:
Post a Comment